فصلِ گل آئے زمانے ہو گئے
زخم شاخوں کے پرانے ہو گئے
خاک اُڑا کر رہ گئی موجِ صبا
دفن مٹی میں خزانے ہو گئے
کھڑکیوں میں پھول کھلتے تھے جہاں
وہ گلی کوچے فسانے ہو گئے
کچھ تو ہم پہلے ہی تھی آشفتہ سر
اور کچھ تیرے بہانے ہو گئے
لوٹ آئے تیر اپنی ہی طرف
گم خلاؤں میں نشانے ہو گئے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...